حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،افغانستان میں طالبان کے کنٹرول کے بعد سے ہی جہاں متعدد خواتین اپنے حقوق اور حکومت میں شمولیت کے لیے طالبان کے خلاف مسلسل احتجاج کر رہی ہیں۔ وہیں، اب طالبان کی حمایت میں بھی خواتین نے ریلی نکال کر طالبان کی پالیسیوں سے اتفاق کا اظہار کیا ہے۔
ان خواتین کا کہنا ہے کہ وہ ایسی بے پردہ خواتین کے خلاف ہیں، جو کابل کی سڑکوں پر احتجاج میں خود کو افغان خواتین کی نمائندہ قرار دیتی ہیں۔
دراصل افغانستان کے دارالحکومت کابل میں حجاب میں ملبوس سینکڑوں خواتین نے سنیچر کے روز کابل یونیورسٹی کے لیکچر آڈوٹیریم میں جمع ہوکر طالبان کی پالیسیوں سے اتفاق کا اظہار کیا۔ اس موقع پر تمام خواتین نے مختلف پلے کارڈز اور طالبان کے سفید جھنڈے بھی تھامے ہوئے تھے۔
آڈوٹوریم میں جب مقررین نے مغرب پر تنقید کی اور طالبان کی پالیسیوں کی حمایت کا اعلان کیا تو برقعے میں ملبوث سینکڑوں خواتین نے طالبان کے جھنڈے لہرئے۔خواتین نے کہا کہ طالبات اگر تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہیں تو انہیں سر تا پاؤں برقع پہننا چاہیے۔
ہفتے کے روز کابل یونیورسٹی میں سینکڑوں خواتین نے طالبان کی حمایت میں جو مارچ شروع کیا تھا وہ سڑکوں پر بھی جاری رہا۔
طالبان کے محکمہ تعلیم نے کہا ہے کہ خواتین کو یونیورسٹی جانے کی اجازت ہوگی لیکن صنفی بنیاد پر کلاسز علیحدہ ہوں گی یا کم از کم درمیان میں پردہ ڈال کر کلاس میں لڑکوں اور لڑکیوں کو علیحدہ تعلیم دی جائے گی اور لڑکیوں حجاب ضرور پہنیں گی۔
وہیں ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ افغنستان کی یہ حکومت عبوری ہے اور شرعیہ قوانین کے احترام کرتے ہوئے خواتین کے لیے بھی عہدے ہوں گے۔ یہ ایک شروعات ہے، خواتین بھی حکومت کا حصہ ہوسکتی ہیں لیکن یہ دوسرے مرحلے میں ہوگا۔
افغانستان پر طالبان کے کنٹرول کے بعد سے ہی متعدد خواتین کی جانب سے اپنے حقوق اور حکومت میں شمولیت کے لیے کابل اور ہیرات میں مظاہرے کیے گئے۔
جس مظاہرے کو ختم کرنے کے لیے طالبان کے سیکیورٹی اہلکاروں پر یہ بھی الزام لگایا گیا کہ طالبان کے خلاف ہونے والے مظاہرے میں شریک خواتین اور اس کو کور کرنے والے صحافیوں و کیمرہ مین کو ہراساں کرنے کے ساتھ ساتھ تشدد کا بھی نشانہ بنیا گیا۔
وہیں اب ملک میں احتجاج کرنے کے لیے پیشگی اجازت لینا لازمی قرار دیا ہے جس میں کم از کم 24 گھنٹے پہلے احتجاج کی تفصیلات حکومت کے سامنے پیش کرنی ہوگی۔